کچھ تو آواز سے شک پڑتا ہے
پھر وہ کنگن بھی کھنک پڑتا ہے
پہلے کرتا ہے طلب پہلی نشست
پھر اسی بس سے لٹک پڑتا ہے
کیسے ساحل سے سمندر دیکھوں
میرے زخموں پہ نمک پڑتا ہے
راز دار ایک کنواں تھا اپنا
آج کل وہ بھی چھلک پڑتا ہے
چھوٹے چھوٹے سے ہیں رشتے لیکن
واسطہ قبر تلک پڑتا ہے
اشک جیسے مرا ہمسایہ ہو
وقت بے وقت ٹپک پڑتا ہے
اس کے سائے پہ نہ رہنا، مرے دوست!
یہ شجر بیچ سڑک پڑتا ہے
Related posts
-
حفیظ جونپوری ۔۔۔ سُن کے میرے عشق کی روداد کو
سُن کے میرے عشق کی روداد کو لوگ بھولے قیس کو فرہاد کو اے نگاہِ یاس!... -
آصف ثاقب ۔۔۔ ملیں گے لوگ کہاں سے وہ پوچھنے والے (خالد احمد کے نام)
ملیں گے لوگ کہاں سے وہ پوچھنے والے گزر گئے ہیں جہاں سے وہ پوچھنے والے... -
شبہ طراز ۔۔۔ تُوہے تو مِرے ہونے کا امکان بھی ہو گا
تُوہے تو مِرے ہونے کا امکان بھی ہو گا اور مرحلۂ شوق یہ آسان بھی ہو...